Madrassa Rabbania Ghousia

“Under the supervision of an expert and inspiring teacher and visionary Islamic scholar who has dedicated over fifty years of his life to the teaching of “Tajweed-Ul-Quran” and propagating the enlightenning message of the Holy Quran and the Holy Prophet (Peace be upon him).”

Hadhrat Allama Qari Muhammad Ismail Sialvi

An inspiring teacher
• A visionary Islamic scholar
• An administrator par excellence
• An affectionate and far-sighted mentor

OUR COURSES AND EVENTS

جامعہ نظامیہ رضویہ سے تجوید و قرات کے فارغ التحصیل سب سے پہلے قاری
(سند المجودین جناب قاری محمد اسماعیل سیالوی مدظلہ کراچی)
از۔محمد طاہر عزیز باروی،ناروے
اس عہد زریں کے کیا کہنے جب اہل سنت علماء،مشائخ،شیوخ حدیث و تفسیر،مدرسین،مناطقہ،فلاسفہ،خطبا،ادبا اور مجودین و مشّاق قراء کے معاملے میں اس قدر خود کفیل تھے کہ ڈھونڈے سے بھی کوئی دوسری نظیر نہ ملتی۔رفتہ رفتہ شخصیات پردہ فرماتی گئیں اور ہم روبہ زوال ہوتے گئے۔صرف مجودین قراء کے شعبے میں عروس البلاد شہر لاہور میں ہی نظر دوڑائی جائے تو فن قرات کے اس قدر تناور شجر سایہ دار،مضبوط ستون بلکہ ایسے ایسے برج موجود تھے کہ لگتا تھا اس فن کے وارث اور موجد ہی صرف اہل سنت و جماعت کے لوگ ہیں۔
امام الجودین جناب قاری محمد یوسف سیالوی،جامعہ نظامیہ میں،مجود العصر،استاذ القراء قاری محمد یوسف صدیقی صاحب جامعہ صدیقیہ مستی گیٹ میں،زینت قراء عالم جناب قاری غلام رسول صاحب دارالقرآن گارڈن ٹاؤن میں،استاذ العصر جناب قاری محمد یوسف بغدادی،جامعہ نظامیہ میں،سند المجودین جناب قاری برخورد دار احمد سدیدی بلال گنج میں،شیخ المجودین جناب قاری ظہور احمد سیالوی،جامعہ نظامیہ میں، استاذ القراء جناب قاری کرامت اللہ نقشبندی جامعہ جماعتیہ میں، جناب قاری عبدالغفار جہلمی جامعہ رسولیہ شیرازیہ میں،استاذ القراء جناب قاری ذوالفقار احمد برسالوی جامعہ نظامیہ میں تشریف فرماتھے۔اور باقی بڑے بڑے اداروں میں گویا ہر جگہ اس شعبے کے نامور،ماہرین اور تجربہ کار اساتذہ موجود اور اور ان کا طوطی بولتا تھا۔
یوں تجوید کا شعبہ بھی اپنے کمال میں اوج ثریا پہ تھا یہ سب لوگ شعبہ تجوید پر اتھارٹی سمجھے جاتے،ملک و بیرون ملک سے طلبہ ان کے نام پر دوڑے چلے آتے۔ان اداروں کے فضلاء کو پاکستان و بیرون ملک ہاتھوں ہاتھ قبول کیا جاتا اورانہیں سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا گویا پاکستان کے بڑے شہروں سے سند فراغت حاصل کرنے والے آس پاس کے دیہاتوں اور چھوٹے یا متوسط شہروں کے لیے یہ ادارے استاذ پیدا کرنے کی فیکٹریاں تھیں۔چیک کرنے کے لیے ہی دیکھ لیا جائے ملک پاکستان کے کسی مدرسے کے شعبہ تجوید کے استاذ کو دیکھ لیا جائے وہ کسی نہ کسی طرح ان بڑے قراء کے سلسلہ تلمذ سے وابستہ نظر آئے گا۔شعبہ تجوید میں مروجہ کتب دیکھ لی جائیں یہ سب مذکور اکابر قراء کی یادگاریں نظر آئیں گی۔مرور زمانہ اور بزرگوں کے اٹھ جانے کی وجہ سے مدارس و مراکز نااہل صاحبزادگان کے ہاتھوں ذاتی پراپرٹی بن گئے کہیں بیکریاں بنیں تو کہیں کباڑ خانے، کہیں اکھاڑے قائم ہوئے تو کہیں ٹرک اڈے یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔ہمارے اکابر،ویران کدوں کو اپنے اخلاص و للہیت کی بنیاد پر باغ ارم بناتے مگرانہی کی اولادیں ان مراکزکو پھر ویرانیوں کا شکار کرتے چلے گئے۔معدودے چند مدارس آج بھی اسی راہ پہ گامزن ہیں اور اپنی خدمات کے اسی تسلسل سے اور روز افزوں ترقی سے اہلسنت کو باقی رکھے ہوئے ہیں ورنہ ۔۔۔
یہ مدارس کا نوحہ ہے یہ لکھا جائے تو جگر پھٹ جائیں حضرت سعدی کا ایک جملہ ہے واں پیر لاشہ۔۔۔۔ مدارس کے نوحےمیں یہی ایک زخم مندمل ہونے والا نہیں کہ حضرت داتا صاحب کے مزار کی بغل میں واقع وہ ادارہ کہ جہاں کبھی فقیہ اعظم بصیر پوری، مفتی اعظم پاکستان مفتی عبدالقیوم ہزاروی،شرف ملت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیھم الرحمۃ ایسے شاہکار اپنی علمی پیاس بجھایا کرتے آج اسی دارالحدیث میں جہاں فیضان حدیث اپنی نور نکہت بکھیرتا وہاں رنگا رنگ گول گول رس گلے تلے جاتے ہیں۔جہاں کنز قدوری کی بحثیں چلتیں وہاں نمکو کے ڈبے پیک ہوتے ہیں۔جہاں منطق و فلسفہ کی گتھیاں سلجھائی جاتیں وہاں سینڈوچ بنانی کی ریسیپی تیار ہوتی ہے۔شاید کوئی توجہ کرے تو خواجہ حیدر علی آتش نے برف کی سلوں میں آگ لگا دینے والا شعر کہہ ڈالا تھا
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
اللہ سلامت رکھے یہ چند ایک ادارے ہی لاہور میں رہ گئے ہیں جو اہل سنت کو ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں مدرسین،اساتذہ مہیا کر رہے ہیں ان مدارس کے ساتھ ہمیں ہمہ قسمی تعاون کرتے رہنا چاہیے کہ انہی سے یہ سب قائم ہے ۔۔
خیر یہ درد دل ہے کہ اس وقت شعبہ تجوید شدید کسمپرسی کے عالم میں ہے ، زمانہ ترقی کر رہا ہے قرآن اچھا پڑھنے والے قراء کرام کی مانگ بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن مدارس دینیہ سے شعبہ تحفیظ و تجوید کو ہر سال مزید سکیڑا جا رہا ہے بقول شہنشاہ غزل حضرت غالب
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
مادر علمی جامعہ نظامیہ کے اقبال رب قدیر ہمیشہ سلامت رکھے یہ ہمارا وقار بھی ہے افتخار بھی یہ سائبان رحمت بھی،اور زرخیر ترین زمین بھی جس کے صافی چشمے سے ایک جہان اپنی علمی پیاس بجھا رہا ہے۔
جامعہ نظامیہ کا شعبہ تجویدغالبا 1969ء میں قائم ہوا اور شعبہ تجوید کے لیے پہلے استاذ کے طور پرامام المجودین حضرت قاری محمد یوسف سیالوی اپنے استاذ گرامی حضرت قاری محمد حنیف علیہ الرحمۃ(جنہیں آج بھی جامعہ کے سینئر اساتذہ میں’’ بڑے استاذ جی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے )کے حکم سے استاذ مقرر ہوئے۔ کہیں پڑھا تھا کہ خود حضرت قاری یوسف سیالوی صاحب مدظلہ نے بھی اسی سال سند فراغت حاصل کی تھی اور اس کے معا بعد تدریس کا آغاز بھی کر دیا۔ان سے شعبہ تجوید کی جو پہلی کلاس فارغ التحصیل ہوئی ان میں سند نمبر ایک جس خوش بخت،سعد نصیب طالب علم کو ملی وہ مجود العصر حضرت قاری محمد اسماعیل سیالوی (کراچی) مدظلہ کی ذات گرامی ہے ۔
مجھے ان کی شخصیت سے تعارف برادرم علامہ محمد طاہر سیالوی صاحب ناظم اعلیٰ شمس العلوم جامعہ رضویہ اورفاضل جلیل عالم نبیل حضرت علامہ مفتی محمد رمضان سیالوی صاحب خطیب جامع مسجد دربار حضرت داتا گنج بخش کے استاذ ہونے کی حیثیت سے تو تھا لیکن جب مجھے ان کی اس ’’تاریخی سند‘‘کا معلوم ہوا تو طبیعت میں ان سے ایک عجیب سی محبت و عقیدت بھی پیدا ہوگئی۔مزید برآں ان کی قرآن کی تلاوت سے محبت کا سن کے تو باقاعدہ رشک پیدا ہوا کہ الہیٰ یہ کس دیس کے لوگ ہیں کہ دن قرآن پڑھانے میں اور رات قرآن پڑھنے میں ۔۔
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومیؔ، کبھی پیچ و تابِ رازیؔ
دو روز قبل شیخ المجودین حضرت قاری محمد یوسف سیالوی مدظلہ کے حوالہ سے ایک تحریر شیئر کی تو اس کی تحسین کے لیے حضرت مفتی محمد رمضان سیالوی صاحب کا فون آیا بات چلتے چلتے حضرت قاری یوسف سیالوی صاحب کی تدریس کی ابتدا جامعہ نظامیہ تک آن پہنچی وہیں سے ذکر قبلہ قاری اسماعیل کا اور ساتھ مفتی صاحب کہنے لگے کہ
’’جس قدر استاذ اسمٰعیل سیالوی صاحب تلاوت قرآن کرتے ہیں اور کوئی اس طرح کا استاذ اتنا قرآن پڑھنے والا نہیں دیکھا اور ایسا بھی نہیں کہ بس زبانی ، وضو بے وضو یا چلتی پھرتی حالت میں لیٹے بیٹھے پڑھتے رہے ایسے بہت کم انہیں جب بھی قرآن دیکھا تو اس کی تلاوت کے جمیع آداب اور اس کی تلاوت کے تمام تقاضوں کو پورا ادا کرتے ہوئے پوری یکسوئی توجہ اور محبت کے ساتھ وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ 1993ء میں اور استاذ گرامی حج کے موقع پر حرم مکہ میں اکٹھے ہوئے میں نے دیکھا کہ لوگوں نے اپنی اپنی نشانی کے طور پر اپنے نام ، ایڈریس اور اپنے اپنے گروپ کے بیگ گلےمیں لٹکائے ہوئے ہیں لیکن استاذ گرامی گھر سے کپڑے کا ایک خوبصورت بیگ بنوا کے لےگئے جس میں صرف ان کا قرآن پاک تھا اور وہی انہوں نے گلے میں حمائل کیا ہوا تھا۔ حرم مکہ میں ملاقات ہوئی عشاء کے بعد میں نے اجازت چاہی اور دوبارہ ملاقات کے مقام پوچھا تو فرمانے لگے یہیں حرم میں صبح کی نماز میں ملاقات ہوتی ہے۔میں جب عشاء پڑھ کے نکلنے لگا تو وہ پہلے پارے کی تلاوت شروع کرچکے تھے ۔فجر کے وقت جب میں وہاں پہنچا تو اسی جگہ پر بیٹھے تھے اور انتیسویں پارے کی تلاوت کر رہے تھے مجھے اندازہ ہوگیا اور رشک بھی آیا کہ انہوں نے یہاں بیٹھے بیٹھے ایک ہی رات میں پورا قرآن پاک ختم کر لیا ‘‘
صحیح بخاری کی ایک حدیث پاک کی روشنی میں ایسے ہی تو بندے پہ رشک کرنا جائز ہے کہ جو تلاوت قرآن کرنے کا اس قدر عاشق ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہیے ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے (بخاری 5026)
میں نے جب یہ بات سنی تو دل میں اتنی محبت پیدا ہوئی اور خالصۃ اپنی نیک بختی اور سعادت مندی کے طورپر یہ سطور لکھیں کہ شاید ان صلحاء کا ذکر میرے لیے کفارۃ ذنوب بن جائے۔ ایسے اساتذہ غنیمت اور رب کی نعمت عظمیٰ ہیں جن کا لمحہ لمحۃ سنت نبوی کا عکاس اور قرآن پڑھنے پڑھانے میں یا قرآن پڑھنے والوں کی خدمت میں بسر ہوتا ہے۔
جامع ترمذی کی حدیث پاک ہے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کوئی قوم ایسی نہیں کہ وہ مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت یا آپس میں ایک دوسرے کو قرآن سنتے سناتے، سیکھتے سکھاتے ہوں اور ان پر اللہ کی مدد نازل نہ ہو اور اس کی رحمت ان کا احاطہ نہ کرلے اور فرشتے انہیں گھیر نہ لیں اور جس نے عمل میں سستی کی اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔( 855)
چند ماہ قبل،میں سالانہ تعطیلات پر پاکستان گیا جانے سے پہلے ہی میرے ذہن میں تھا کہ اس بار میں استاذ القراء قاری برخورددار احمد سدیدی کی دست بوسی کر کےآؤں گا، اتفاق مجھے ان کے جامعہ کے سالانہ جلسہ دستار فضیلت کے پروگرام میں ان کے نور نظر مولانا قاری محمد عبداللہ ثاقب صاحب کی جانب سے دعوت مل گئی تو سونے پہ سہاگا ہوگیا میں اپنے احباب ذی قدر کے ساتھ وہاں پہنچا جلسے میں شرکت کی سعادت بھی مل گئی اور دست بوسی کی شفقت بھی ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک مجلس میں کہ فاضل جلیل علامہ محمد عبداللطیف چشتی مدظلہ خطیب اعظم بیلجیئم نے بتایا کہ جب ہم قاری برخورددار صاحب پاس تجوید پڑھتے تھے ا ستاذ صبح سحری کے وقت تہجد سے بھی کچھ پہلے جامعہ آتے کپڑے تبدیل کرتے مسجد کی مکمل صفائی اور واش روم تک اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے پھر تہجد ادا کرکے ہمیں بیدار کرتے اور تعلیم قرآن کا آغاز ہوجاتا۔ ایک بار ہم ساتھیوں نے کہا کہ ہم کر دیا کریں گے صفائی آپ نہ کیا کریں فرمانے لگے مسجد اللہ کا گھر ہے جس قدر تمہیں ثواب کی ضرورت ہے اتنی مجھے رہے واش روم تو قرآن پڑھنے والے بچے استعمال کرتے ہیں قرآن پڑھنے والوں کی کوئی بھی خدمت کرنے میں مجھے کبھی عار محسوس نہیں ہوئی۔کس قدر عظیم ہیں یہ لوگ نصف نصف صدی قرآن پڑھنے پڑھانے میں گذار دی، تہجد تک قضا نہیں ہوئی مگر عاجزی و انکساری اور قرآن پڑھنے والے بچوں کے ساتھ محبت کا یہ عالم یہ اگر قدسی جماعت نہیں تو اور کون سی جماعت ہوگی جس پر رب کا فضل سایہ فگن ہوگا
کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن برآستان کاملے
ایسے دنیا بازاری قسم کے جبوں قبوں کے پیچھے باولی ہوئی پھرتی ہیں ایسے لوگ اولیاء کی جماعت سے ہیں جن کے شب و روز تو کجا زندگی کا لمحہ لمحہ تعلیم قرآن اور تلاوت قرآن سے عبارت ہے ۔
ویسےتوپاکستان بھر میں بالخصوص کراچی و سندھ میں شعبہ تجوید و قرأت کی جو خدمات حضرت قبلہ قاری محمد اسماعیل سیالوی مدظلہ نے دیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔اور یہ سلسلہ نصف صدی سے تاہنوز پورے عروج اور پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے ۔ آپ نے 1970ء میں جامعہ نظامیہ سے سند فراغت حاصل کی اس کے بعد سے اس وقت تک مسلسل خدمت قرآن مجید میں مصروف عمل ہیں،لالہ موسیٰ،چک سواری اور پھر اس کے بعد اب تک مستقل قیام کراچی میں ہے اور خدمت قرآن ہےاور یہ ہیں۔
جہاں بھر میں آپ کے تلامذہ کا سلسلۃ الذھب موجود ہے جو خدمت قرآن میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ان کے نامور تلامذہ میں ایک عظیم نام خطیب داتا دربار علامہ قاری مفتی محمد رمضان سیالوی کا بھی ہے،وہ جیدعالم ہونےکے ساتھ ساتھ،بہترین خطیب ہیں اس کے باوصف وہ بہترین قاری قرآن بھی ہیں جن کی تلاوت دلوں میں قرآن پاک کی سماعت کے سرور کو دوبالا کر دیتی ہے۔حضرت مفتی محمد رمضان سیالوی صاحب کے علمی و قلمی جواہر پارے مجالس علم میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں انہوں نے فتاویٰ جات کی تاریخ میں سب سے معتبر اور مستند فتاویٰ’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘کا اشاریہ چالیس دنوں میں ترتیب دے کر نامور مفتیان کرام کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ علم تجوید پر ان کا ایک مختصر مگر جامع رسالہ’’اساس التجوید‘‘زمانہ طالب علمی سے منظر عام پرآچکی ہے اور کئی مدارس میں شعبہ تجوید کے نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔
ابھی کچھ عرصہ قبل مفتی محمد رمضان سیالوی صاحب نے ہی اپنے استاذ گرامی کی ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ بڑےدلنشین اور انتہائی سادہ انداز میں عام سی قرآن مجید پڑھانے کی اپنی مسند پہ تشریف فرما اور قرآن پاک رکھنے والی سادہ سی پھٹی پہ دھری ایک چنگیر میں روٹی تناول فرمارہے ہیں۔ سامنے مفتی محمد رمضان سیالوی مدظلہ کے لخت جگر نور نظر جناب حافظ قاری ضیاء الرحمان صاحب انہیں منزل سنا رہے ہیں۔ کیا دلکش انداز ہے کہ کوئی روٹی کھاتے ٹی وی دیکھتا ہے،کوئی گپ شپ کوئی وہاں بھی فون کی جان نہیں چھوڑتا لیکن یہ مرد خدا مست اس عالم میں بھی سماعت قرآن سے حظ اٹھا رہا ہے۔
الہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
حضرت مفتی محمد رمضان صاحب تربیت اولاد کے معاملے میں کئی علماء کے لیے رول ماڈل ہیں انہوں نے اپنے دو نوں صاحبزادوں قاری ضیاء الرحمان اور قاری عطاء الرحمان کو اسکول کی تعلیم بھی دلوائی اور حفظ قرآن بھی نہایت پختگی کے ساتھ اپنی نگرانی میں مکمل کروایا بعد ازاں دونوں صاحبزادوں کو اپنے استاذ محترم حضرت قبلہ قاری محمد اسماعیل سیالوی مدظلہ کی خدمت میں لے کے گئے اور ان کو تجوید کا دو سالہ کورس مکمل کروایا۔بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ جس طرح قبلہ قاری اسماعیل صاحب کو اپنے استاذ گھرانے کے ساتھ محبت ہے انہوں نے بھی لالہ موسیٰ کافی عرصہ اپنے استاذ گرامی حضرت قبلہ قاری محمد یوسف سیالوی صاحب کی نیابت میں تدریس کا فریضہ سر انجام دیا۔بعینہ مفتی محمد رمضان سیالوی صاحب کو بھی اپنے استاذ گرامی سے محبت و عقیدت ہے اور یہ بھی تجوید سے فراغت کے بعد کافی عرصہ اپنے استاذ گرامی کی نیابت میں وہاں شعبہ تجوید کے پہلے سال کی کلاس کو پڑھاتے رہے ان کے بعد ان کے برادر گرامی جناب قاری توقیر ضیاء سیالوی صاحب عرصہ ستائیس سال ادھر ادھر کی آفرز کی پرواہ کیے بغیر ان کی جگہ پر اپنے استاذ گرامی کی نیابت میں تجوید کی کلاس کو پڑھانے کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھارہے ہیں۔
گذشتہ برس فروری 2022ء میں اہل کراچی کی جانب سے قبلہ قاری محمد اسماعیل سیالوی مدظلہ کی پچاس سالہ خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بہت وسیع پیمانے پر پروگرامات کا انعقاد کیا گیا جس میں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پاکستان بھر سے ان کے تلامذہ و معتقدین اس پروگرام میں شریک ہوئے خصوصی طور پر قرآن کے خادم کو تحسین پیش کرنے کے لیے قائد ملت اسلامیہ علامہ مفتی منیب الرحمان صاحب اس پروگرام میں شریک ہوئے اور انہوں نے قبلہ قاری صاحب کی خدمات جلیلہ کو خراج تحسین پیش کیا اور ارشا د فرمایا کہ
’’قاری اسماعیل سیالوی علم تجوید وقرت کے میدان میں قرآن کی مسلسل خدمت کی ہے،قرآن کی تعلیمات پر عمل پیر اہوکرکامیابی کی منازل کو طے کیا جاسکتا ہے،اغیار اور طاغوتی قوتیں مسلمانوں کو قرآن پاک کی تعلیمات سے دور کرنے کیلئے طرح طرح کی سازشوں کا جال بچھائے ہوئے ہیں، اسلام وانسانیت دشمن فتنوں کے خاتمے کیلئے ہمیں قرآن وسنت کی تعلیمات کو فروغ دینا ہوگا،اور قرآن پاک کو درست انداز میں پڑھنے پر خصوصی توجہ اور محنت سے اس طرح کام کرنا ہوگا جس طرح حضرت قبلہ قاری محمد اسماعیل سیالوی نے یہ فریضہ سر انجام دیا ہے ۔ ‘‘
حضرت قبلہ قاری محمد اسماعیل سیالوی صاحب کے نور نظر لخت جگر مولانا صاحبزادہ احمد رضا سیالوی صاحب درس نظامی کے فاضل اور بہترین حافظ قاری ہیں وہ اپنے والد گرامی کی قدیمی مسجد جامع مسجد دیار حبیب کار ساز کراچی میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں جہاں قبلہ قاری صاحب تقریبا چالیس سال خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے اور ان کے چھوٹے صاحبزادے مرکزی دارالعلوم جامعہ ربانیہ ماڈل کالونی کراچی میں علامہ محمد طاہر رضا صاحب اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔یہ اس سے قبل ایک طویل عرصہ ڈنگہ (ضلع گجرات) میں ایک ادارے میں اپنی خدمات پیش کرتے رہے اب والد گرامی کی نیابت میں دینی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ۔مولانا محمد طاہر نقشبندی صاحب بہت لائق اور باصلاحیت عالم دین ہیں قدیم و جدید علوم پر ان کی گہری نظر ہے ۔
سوشل میڈیا کا دور ہے کسی شخصیت کے نطریات جانچنے یا ان کے علمی فیضان سے استفادے کی بآسانی کئی کئی صورتیں موجود ہیں۔مولانا محمد طاہر نقشبندی صاحب کے علمی نکات، و نظریات فیس بک کے ذریعے سامنے آتے رہتے ہیں جس سے ان کے اعلیٰ ذوق اور کتب بینی کے شوق کا اندازہ ہوتا ہے ان کے افکار لائق تحسین اور قابل استفادہ ہیں۔
جامع الصغیر میں شیر خدا مشکل مولا مرتضیٰ کرم اللہ وجھہ کے توسط سے رسول اکرم ﷺ کا تربیت اولاد کے متعلق ایک خوبصورت ایجنڈا ہمیں عطا ہوا کہ
’’اپنی اولاد میں تین خوبیاں ضرور پیدا کرو۔ اپنے نبی سے محبت، نبی کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن۔ کیونکہ حاملین قرآن اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اصفیاء کے ساتھ اس روز اللہ کے سائے کے نیچے ہوں گے جس دن کوئی اور سایہ نہیں ہوگا‘‘
اللہ کریم ہم سب کو تلاوت قرآن اور سماعت قرآن کا وہ ذوق عطا فرمائے جس کا کبھی اختتام نہ ہو۔ اور اللہ حضرت قاری محمد اسماعیل سیالوی اور دوسرے تمام محبین و حاملین قرآن کے فیضان کو عام فرمائے اور ان عظیم لوگوں کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔ ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد
(08 جون 2023 بروز جمعرات بمطابق 19 ذوالقعدہ 1444ہجری)